Healthy Life

Health care plan.Fitnees tips.Beautiy tips.Weight lose tips Skin beautiy tips.Headache .toothache .joint pain.Face beautiy .Eyes protection

Comments

Contact Form

Name

Email *

Message *

Categories

Popular

موت کے قریب انسان کیا دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں

No comments

موت کے قریب انسان کیا دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں؟


موت کے قریب انسان کیا دیکھتے ہیں یا وہ کیا کچھ دیکھتا یا محسوس کرتا ہے، اس بارے میں معلومات تو نہ ہونے کے برابر ہے، مگر اب سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا بھر میں 10 فیصد افراد زندگی میں ہی اس قسم کے تجربے سے گزرتے ہیں۔
35 ممالک میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک ایک فرد کو قریب المرگ یا سکتے کا تجربہ ہوتا ہے جس کے دوران وہ متعدد روحانی اور جسمانی تجربات سے گزرتے ہیں، جیسے روح جسم سے باہر نکلنے، دنیا سے گزر جانے والے پیاروں کو دیکھنا، خیالات کی دوڑ اور وقت کا احساس تھم جانا وغیرہ۔
طبی زبان میں اسے نیئر ڈیتھ ایکسپیرنس (این ای ڈی) کہا جاتا ہے جو ایسے افراد میں عام ہوتا ہے جن کو زندگی کے لیے خطرہ بن جانے والے واقعات جیسے ہارٹ اٹیک، گاڑیوں کے حادثات، ڈوبنے یا جنگی حالات کا سامنا ہوتا ہے۔
ڈنمارک میں ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس طرح کے تجربے سے گزرنے والے 87 فیصد افراد کو وقت کے غیرمعمولی تصور کا تجربہ ہوا، خیالات کی رفتار بہت تیز ہوجانے کا سامنے کرنے والے افراد کی شرح 65 فیصد رہی جبکہ روح جسم سے الگ ہونے کا تجربہ 53 فیصد افراد کو ہوا۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کے محققین نے بتایا کہ ایسے تجربات سے گزرنے والے افراد نے مکمل سکون کے احساس کا اظہار کیا ہے جبکہ فرشتوں کی آوازیں سننے کے ساتھ اپنی زندگی کو آنکھوں کے سامنے بجلی کی طرح گزرتے دیکھنے کا بھی سامنا ہوا۔
اسی طرح کچھ افراد نے ایک تاریک سرنگ کے ایک کونے میں چمکدار روشنی کو دیکھنے کے بارے میں بتایا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ انہیں اس طرح کے سکتے سے قبل اپنے ارگرد کسی اور کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔
اس تحقیق کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد سے آن لائن سوالات کیے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کبھی موت کے منہ میں جانے کا تجربہ ہوا ؟
محققین کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس طرح کے تجربات اور انتہائی گہری نیند کے درمیان تعلق موجود ہے، جس کے بارے میں فی الحال تفصیلات موجود نہیں۔
اس تحقیق کے نتائج یورپین اکیڈمی آف نیورولوجی کی کانفرنس میں پیش کیے گئے۔

No comments :

Post a Comment